ٹھوکریں کھا کر جو سنبھلتے ہیں
نظمِ گیتی وہی بدلتے ہیں
وہ ترستے ہیں روشنی کے لیے
جن کے خوں سے چراغ جلتے ہیں
بے سبب مسکرانا کیا معنی
بے سبب اشک بھی نکلتے ہیں
تہمت گم رہی ہے بچنے کو
راہبر راستے بدلتے ہیں
گھیر لیتی ہے گردشِ دوراں
گیسوؤں سے جو بچ نکلتے ہیں
دوستو فیضِ ہمرہی معلوم
آؤ دو گام پھر بھی چلتے ہیں
ہم نقیبِ بہار ہیں محسن
وقت کے رخ کو ہم بدلتے ہیں