Monthly archives: June, 2020

جیتے ہیں کیسے، ایسی مثالوں کو دیکھئے (عزیز لکھنوی)

جیتے ہیں کیسے، ایسی مثالوں کو دیکھئے پردہ اٹھا کے چاہنے والوں کو دیکھئے کیا دل جگر ہے چاہنے والوں کو دیکھئے میرے سکوت اپنے سوالوں کو دیکھئے اب بھی ہیں ایسے لوگ کہ جن سے سبق ملے دل مردہ ہے تو زندہ مثالوں کو دیکھئے کیا دیکھتے ہیں آپ بہارِ نمو ابھی جب ایڑیوں …

جوانی کے ترانے گا رہا ہوں (حفیظ جالندھری)

جوانی کے ترانے گا رہا ہوں دبی چنگاریاں سلگا رہا ہوں مِری بزمِ وفا سے جانے والو ٹھہر جاؤ کہ میں بھی آ رہا ہوں بتوں کو قول دیتا ہوں وفا کا قسم اپنے خدا کی کھا رہا ہوں ہوئی جاتی ہے کیوں بے تاب منزل مسلسل چل رہا ہوں آ رہا ہوں نئے کعبے …

جہاں قطرے کو ترسایا گیا ہوں (حفیظ جالندھری)

جہاں قطرے کو ترسایا گیا ہوں وہیں ڈوبا ہوا پایا گیا ہوں بلا کافی نہ تھی اک زندگی کی دوبارہ یاد فرمایا گیا ہوں سپردِ خاک ہی کرنا تھا مجھ کو تو پھر کاہے کو نہلایا گیا ہوں کوئی صنعت نہیں مجھ میں تو پھر کیوں نمائش گاہ میں لایا گیا ہوں مجھے تو اس …

ہم ہی میں کوئی بات نہ تھی یاد تم کو آ نہ سکے (حفیظ جالندھری)

ہم ہی میں کوئی بات نہ تھی یاد تم کو آ نہ سکے تم نے ہمیں بھلا دیا ہم نہ تمہیں بھلا  سکے تم ہی نہ سن سکے اگر قصئہ غم سنے گا کون کس کی زباں کھلے گی پھر ہم نہ اگر سنا سکے عجز سےا ور بڑھ گئی برہمئی مزاجِ دوست اب وہ …

اب شدتِ غم میں مصنوعی آرام سہارا دیتا ہے (عبدالحمید عدم)

اب شدتِ غم میں مصنوعی آرام سہارا دیتا ہے یا دوست تسلی دیتے ہیں یا جام سہارا دیتا ہے اے دوست محبت کے صدمے تنہا ہی اٹھانے پڑتے ہیں رہبر تو فقط اس رستے میں دو گام سہارا دیتا ہے دو نام ہیں صرف اس دنیا میں، اِک ساقی کا، اِک یزداں کا اک نام …

اب دو عالم سے صدائے ساز آتی ہے مجھے (عبد الحمید عدم)

اب دو عالم سے صدائے ساز آتی ہے مجھے دل کی آہٹ سے تِری اواز آتی ہے مجھے جھاڑ کر گردِ غمِ ہستی کو اڑ جاؤں گا میں بےخبر ایسی بھی اک پرواز اتی ہے مجھے یا سماعت کا بھرم ہے یا کسی نغمے کی گونج ایک پہچانی ہوئی اواز آتی ہے مجھے کس نے …

بدلے بدلے مِرے غم خوار نظر آتے ہیں (شکیل بدایونی)

بدلے بدلے مِرے غم خوار نظر آتے ہیں مرحلے عشق کے دشوار نظر آتے ہیں کشتئی غیرتِ احساس سلامت یا رب ! آج طوفان کے آثار نظر آتے ہیں جو سنا کرتے تھے ہنس ہنس کے مرا نغمئہ وشق اب مِری شکل سے بیزار نظر آتے ہیں ان کے آگے جو جھکی رہتی ہیں نظریں …

شاید آغاز ہوا پھر کسی افسانے کا (شکیل بدایونی)

شاید آغاز ہوا پھر کسی افسانے کا حکم ادم کو ہے جنت سے نکل جانے کا ان سے کچھ کہہ تو رہا ہوں مگر اللہ کرے وہ بھی مفہوم نہ سمجھیں مِرے افسانے کا دیکھنا دیکھنا یہ حضرتِ واعظ ہی نہ ہوں راستہ پوچھ رہا ہے کوئی مے خانے کا بے تعلق ترے آگے سے …

کوئی آرزو نہیں ہے کوئی مدعا نہیں ہے (شکیل بدایونی)

کوئی آرزو نہیں ہے  کوئی مدعا نہیں ہے تِرا غم رہے سلامت مِرے دل میں کیا نہیں ہے کہاں جامِ غم کی تلخی کہاں زندگی کا درماں مجھے وہ دوا ملی ہے جو مِری دوا نہیں ہے تمھیں کہہ دیا ستمگر یہ قصور تھا زباں کا مجھے تم معاف کر دو مِرا دل برا نہیں …

لطیف پردوں سے تھے نمایاں مکیں کے جلوے مکاں سے پہلے (شکیل بدایونی)

لطیف پردوں سے تھے نمایاں مکیں کے جلوے مکاں سے پہلے محبت آئینہ ہو چکی تھی وجودِ بزمِ جہاں سے پہلے ہر ایک عنوان دردِ فرقت ہے ابتدا شرحِ مدعا کی کوئی بتائے کہ یہ فسانہ سنائیں ان کو کہاں سے پہلے اٹھا جو مینا بدست ساقی رہی نہ کچھ تابِ ضبط باقی تمام مے …