حروف آگہی تھے بے کس و لاچار کیا کرتے (اعتبار ساجد)

حروف آگہی تھے بے کس و لاچار کیا کرتے

کلاشنکوف کے آگے مرے اشعار کیا کرتے

جہاں گولی سے حرفِ جسم پر اعراب لگتے ہیں

وہاں منطق، دلیلیں، فلسفے، افکار کیا کرتے

جنہیں اپنی پرستش سے کبھی فرصت نہیں ملتی

ہم ان کے روبرو اپنا بتِ پندار کیا کرتے

نصیحت کرنے والوں کو بھی خوش رکھنا ضروری تھا

جو میں اپنی سی کرتا یہ ہدایت کار کیا کرتے

دلیلیں دے رہے ہیں لوگ اپنی قامتِ فن کی

ہمیں نے سادھ لی چپ، حجتیں بے کار کیا کرتے

مکینوں کو مکینوں کی طرح پایا نہیں ہم نے

سو اس بستی میں تحسینِ در و دیوار کیا کرتے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *