خاص اِک شان ہے یہ آپ کے دیوانوں کی
دھجیاں خود بخود اڑتی ہیں گریبانوں کی
سخت دشوار حفاظت تھی گریبانوں کی
آبرو موت نے رکھ لی ترے دیوانوں کی
رحم کر اب تو جنوں! جان پہ دیوانوں کی
دھجیاں پاؤں تک آپہنچیں گریبانوں کی
گرد بھی مل نہیں سکتی ترے دیوانوں کی
خاک چھانا کرے اب قیس بیابانوں کی
ہم نے دیکھی تھی ادا کل ترے دیوانوں کی
دھجیاں کچھ لیے بیٹھے تھے گریببانوں کی
ابتدا عشق کی ہے فطرتِ انساں کی نمود
انتہا عشق کی تکمیل ہے انسانوں کی
جب سے غش کھا کے گرے حضرتِ موسیٰ سرِ طور
گھٹ گئی شان ہی کچھ عشق کے افسانوں کی
دل میں باقی نہیں وہ جوشِ جنوں ہی ورنہ
دامنوں کی نہ کمی ہے نہ گریبانوں کی
اس نے جو آگ لگا دی وہ فروزاں ہی رہی
بجھ گئی آگ لگائی ہوئی ارمانوں کی