تو کہیں بھی رہے سر پر تیرے الزام تو ہے
تیرے ہاتھوں کی لکیروں میں میرا نام تو ہے
مجھ کو تو اپنا بنا یا نہ بنا تیری خوشی
تیری محفل میں میرے نام کوئی شام تو ہے
دیکھ کر مجھ کو لوگ نام تیرا لیتے ہیں
اس پہ میں خوش ہوں محبت کا یہ انجام تو ہے
وہ ستمگر ہی سہی دیکھ کے اس کو صابر
شکر، اس دلِ بیمار کو آرام تو ہے