بتان ماہ وش اجڑی ہوئی منزل میں رہتے ہیں
کہ جس کی جان جاتی ہے اسی کے دل میں رہتے ہیں
زمیں پر پاؤں نفرت سے نہیں رکھتے پری پیکر
یہ گویا اس مکاں کی دوسری منزل میں رہتے ہیں
ہزاروں حسرتیں وہ ہیں کہ روکے سے نہیں رکتیں
بہت ارمان ایسے ہیں کہ دل کے دل میں رہتے ہیں
محیطِ عشق کی ہر موجِ طوفاں خیز ایسی ہے
وہ ہیں گرداب میں جو دامنِ ساحل میں رہتے ہیں
ہمیں دشوار جینا عار تم کو قتل کرنے سے
بڑی مشکل میں رکھتے ہو بڑی مشکل میں رہتے ہیں
کوئی نام و نشاں پوچھے تو اے قاصد بتا دینا
تخلص داغ ہے وہ عاشقوں کے دل میں رہتے ہیں