شوخی نے تیرے کام کیا اک نگاہ میں
صوفی ہے بت کدے میں، صنم خانقاہ میں
دل میں سماگئی ہیں قیامت کی شوخیاں
وہ دو چار دن رہا تھا کسی کی نگاہ میں
اس توبہ پر ہے ناز تجھے زاہد اس قدر
جو ٹوٹ کر شریک ہو میرے گناہ میں
آتی ہے بات بات مجھے یاد بار بار
کہتا ہوں دوڑ دوڑ کے قاصد سے راہ میں
کیسا نظارہ کس کا اشارہ کہاں کی بات
سب کچھ ہے اور کچھ نہیں نیچی نگاہ میں
مشتاق اس صدا کے بہت درد مند تھے
اے داغ تم تو بیٹھ گئے ایک آہ میں