گل گئے، بوٹے گئے، گلشن ہوئے برہم، گئے
کیسے کیسے ہائے، اپنے دیکھتے موسم گئے
ہنستے رہتے تھے جو اس گلزار میں شام و سحر
دیدۃ تر ساتھ لے کر وے لوگ جوں شبنم گئے
شاید اب ٹکڑوں نے دل کے، قصد آنکھوں کا کیا
کچھ سبب تو ہے جو آنسو آتے آتے تھم گئے
گرچہ ہستی سے عدم تک اک مسافت تھی بعید
پر، اٹھے جو ہم یہاں سے واں تلک یکدم گئے
کیا معاش اس غم کدے میں ہم نے دس دن کی بہم
اٹھ کے جس ہاں گئے دل کا لئے ماتم گئے
سبزہ و گل خوش نشینی ، اس چمن کی جن کو تھی
سو بھی تو دیکھا گریباں چاک و مژگاں نم گئے