خلوت میں بے خودی سے پتہ ہی کہیں نہیں
کیا سیر ہوں وہاں کہ ہمیں ہیں ہمیں نہیں
شکوہ جفا کا تم سے کچھ اے نازنیں نہیں
ایسے ہی تم میں ہوتے ہیں سب اک تمہیں نہیں
عالم سے ان کی انجمنِ ناز ہے الگ
چھت جس کی آسماں ہے یہ وہ زمیں نہیں
گزرا ہوا زمانہ پھر آتا نہیں کبھی
وہ کون سا ہے دَم جو دمِ واپسیں نہیں
غفلت نے میری مجھ کو بنایا ہے دھوپ چھاؤں
مخمل کا خواب ہوں کہ جہاں ہوں وہیں نہیں
یا ہم ہی ہم تھے کوئی نہ تھا ان کی بزم میں
یا اک جہاں آج وہاں ہے ہمیں نہیں
واعظ کو تم تو دیکھتے ہی ہنس پڑے امیر
باتیں تو ان بزرگ کی تم نے سنی نہیں