Monthly archives: August, 2020

قہر ہے، موت ہے، قضا ہے عشق (مومن خان مومن)

قہر ہے، موت ہے، قضا ہے عشق سچ تو یہ ہے بری بلا ہے عشق اثرِ غم ذرا بتا دینا وہ بہت پوچھتے ہیں کیا ہے عشق آفتِ جاں ہے کوئی پردہ نشیں کہ مرے دل میں آ چھپا ہے عشق کس ملاحت سرشت کو چاہا تلخ کامی پہ بامزا ہے عشق ہم کو ترجیح …

دل میں اس شوخ کے جو راہ نہ کی (مومن خان مومن)

دل میں اس شوخ کے جو راہ نہ کی ہم نے بھی جان دی پر آہ نہ کی تھا بہت شوقِ وصل تو نے تو کمی اے حسنِ تاب کاہ نہ کی میں بھی کچھ خوش نہیں وفا کر کے تم نے اچھا کیا نباہ نہ کی محتسب یہ ستم غریبوں پر کبھی تنبیہ بادشاہ …

دکھاتے آئینہ ہو اور مجھ میں جان نہیں (مومن خان مومن)

دکھاتے آئینہ ہو اور مجھ میں جان نہیں کہو گے پھر بھی کہ میں تجھ سے بدگمان نہیں ترے فراق میں آرام ایک آن نہیں یہ ہم سمجھ چکے گر تو نہیں تو جان نہیں پوچھو کچھ مرا احوال میری جاں مجھ سے یہ دیکھ لو کہ مجھے طاقتِ بیاں نہیں یہ گل ہیں داغِ …

ان کے اک جانثار ہم بھی ہیں (داغ دہلوی)

ان کے اک جانثار ہم بھی ہیں ہیں جہاں سو ہزار ہم بھی ہیں تم بھی بے چین ہم بھی ہیں بےچین تم بھی ہو بے قرار بے قرار ہم بھی ہیں اے فلک کہہ تو کیا ارادہ ہے عیش کے خواستگار ہم بھی ہیں شہر خالی کئے دکاں کیسی ایک ہی بادہ خوار ہم …

اب دل ہے مقام بے کسی کا (داغ دہلوی)

اب دل ہے مقام بے کسی کا یوں گھر نہ تباہ ہو کسی کا کس کس کو مزا ہے عاشقی کا تم نام تو لو بھلا کسی کا پھر دیکھتے عیش آدمی کا بنتا جو فلک میر خوشی کا گلشن میں ترے لبوں نے گویا رس چوس لیا کلی کلی کا لیتے نہیں بزم میں …

کعبے کی سمت جا کے مرا دھیان پھر گیا (داغ دہلوی)

کعبے کی سمت جا کے مرا دھیان پھر گیا اس بت کو دیکھتے ہی بس ایمان پھر گیا محشر میں داد خواہ جو اے دل نہ تو ہوا تو جان لے یہ ہاتھ سے میدان پھر گیا چھپ کر کہاں گئے تھے وہ شب کو کہ میرے گھر سو بار آ کے ان کا نگہبان …

خواب میں بھی نہ کسی شب وہ ستم گر آیا (داغ دہلوی)

خواب میں بھی نہ کسی شب وہ ستم گر آیا وعدہ ایسا کوئی جانے کہ مقرر آیا مجھ سے مے کش کو کہاں صبر، کہاں کی توبہ لے لیا دوڑ کے جب سامنے ساغر آیا غیر کے روپ میں بھیجا ہے جلانے کو مرے نامہ بر ان کا نیا بھیس بدل کر آیا سخت جانی …

کب ہوا اے بتِ بیگانہ منش تو اپنا (داغ دہلوی)

کب ہوا اے بتِ بیگانہ منش تو اپنا دل جو اپنا ہے نہیں اس پہ بھی قابو اپنا تم کو آشفتہ مزاجوں کی خبر سے کیا کام تم سنوارا کرو بیٹھے ہوئے گیسو اپنا ابتدائے رمضاں میں ہے مہِ عید کی دھوم کسی کافر نے دکھایا نہ ہو ابرو اپنا بعد میرے نہ رہا دیکھنے …

لطف وہ عشق میں پائے ہیں کہ جی جانتا ہے (داغ دہلوی)

لطف وہ عشق میں پائے ہیں کہ جی جانتا ہے رنج بھی ایسے اٹھائے ہیں کہ جی جانتا ہے جو زمانے کے ستم ہیں وہ زمانہ جانے تو نے دل اتنے ستائے ہیں کہ جی جانتا ہے تم نہیں جانتے اب تک یہ تمہارے  انداز وہ مرے دل میں سمائے ہیں کہ جی جانتا ہے …

شوخی نے تیرے کام کیا اک نگاہ میں (داغ دہلوی)

شوخی نے تیرے کام کیا اک نگاہ میں صوفی ہے بت کدے میں، صنم خانقاہ میں دل میں سماگئی ہیں قیامت کی شوخیاں وہ دو چار دن رہا تھا کسی کی نگاہ میں اس توبہ پر ہے ناز تجھے زاہد اس قدر جو ٹوٹ کر شریک ہو میرے گناہ میں آتی ہے بات بات مجھے …