وہ دیکھیں پہلے بزم میں کدھر کو دیکھتے ہیں
محبت آج تِرے ہم اثر کو دیکھتے ہیں
ہے ان کی چشم کی گردش پہ گردشِ عالم
جدھر ہو اُن کی نظر سب اُدھر کو دیکھتے ہیں
جہاں کے آئنوں سے دل کا آئنہ ہے جدا
اس آئنے میں ہم آئینہ گر کو دیکھتے ہیں
نہ پوچھ شغل اسیری میں ہم غریبوں کا
کبھی قفس کو کبھی بال وپر کو دیکھتے ہیں
عرق کے قطرے نہیں دیکھتے ہیں اُس رُخ پر
سِتارے دھوپ میں ہم دوپہر کو دیکھتے ہیں