وہ روز کون سا ہے کہ ہم پر ستم نہیں
گر یہ ستم ہے روز تو اِک روز ہم نہیں
یہ دل مجھے ڈبو کے رہے گا کہ سینے میں
وہ کون سا ہے داغ جو گردابِ غم نہیں
یہ ضبطِ پیچ و تاب کہ میرے سرِ مزار
گیسوئے دودِ شمع میں بھی پیچ و خم نہیں
خورشید وار دیکھتے عالم کو ایک آنکھ
اس سے زیادہ کیفیتِ جامِ جم نہیں
جاتا ہے بند آنکھیں کیے ذوق کیا کہ دیکھ
یہ راہِ کوئے یار ہے کوئے عدم نہیں