جو کچھ سوجھتی ہے نئی سوجھتی ہے (امیر مینائی)

جو کچھ سوجھتی ہے نئی سوجھتی ہے

میں روتا ہوں ، اس کو ہنسی سوجھتی ہے

تمہیں حور اے شیخ جی سوجھتی ہے

مجھے رشکِ حور اک پری سوجھتی ہے

یہاں تو میری جان پر بن رہی ہے

تمہیں جانِ من دل لگی سوجھتی ہے

جو کہتا ہوں ان سے کہ انکھیں ملاؤ

وہ کہتے ہیں تم کو یہی سوجھتی ہے

یہاں تو ہے آنکھوں میں اندھیر دنیا

وہاں ان کو سرمہ مسی سوجھتی ہے

جو کی میں نے جوبن کی تعریف بولے

تمہیں اپنے مطلب کی ہی سوجھتی ہے

امیر ایسے ویسے تو مضموں ہیں لاکھوں

نئی بات کوئی کبھی سوجھتی ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *