ہوتا ہے سوزِ عشق سے جل جل کے دل تمام
کرتی ہے روح مرحلہِ آب و گل تمام
دردِ فراقِ یار سے کہتا ہے بندنہ
اعضا ہمارے ہو گئے ہیں مضمحل تمام
ہوتا ہے پردہ فاش کلام دروغ کا
وعدے کا دن سمجھ لے وہ پیماں گسل تمام
خلوت میں ساتھ یار کے جانا نہ تھا ہمیں
اربابِ انجمن ہوئے آتش خجل تمام