شام وعدہ ہے اگر اب بھی نہ وہ آئے تو پھر
اور اس غم میں جو دھڑکن دل کی رک جائے تو پھر
جس سے تم دامن کشاں ہو زندگی کی راہ میں
روح کہ گہرائیوں میں وہ اتر جائے تو پھر
تجھ کو ہے جس کی وفاؤں پر نہایت اعتماد
ریزہ ریزہ کر کے وہ تجھ کو بکھر جائے تو پھر
امن کا پرچم لئے پھرتے ہو سارے شہر میں
اور ننگ آدمیت تم ہی کہلائے تو پھر
لکڑیوں کے گھر میں مٹی کا دیا اچھا نہیں
روشنی کے بدلے اس میں آگ لگ جائے تو پھر