ہجر کرتے یا کوئی وصل گزارا کرتے (عبیداللہ علیم)

ہجر کرتے یا کوئی وصل گزارا کرتے

ہم بہرحال بسر خواب تمہارا کرتے

اک ایسی بھی گھڑی عشق میں آئی تھی کہ ہم

خاک کو ہاتھ لگاتے تو ستارہ کرتے

اب تو مل جاؤ ہمیں تم کہ تمہاری خاطر

اتنی دور آ گئے دنیا سے کنارہ کرتے

محوِ آرائشِ رُخ ہے وہ قیامت سرِ بام

آنکھ اگر آئینہ ہوتی تو نظارہ کرتے

اِک چہرے میں تو ممکن نہیں اتنے چہرے

کس سے کرتے جو کوئی عشق دوبارہ کرتے

جب ہے یہ خانئہ دل آپ کی خلوت کے لیے

پھر کوئی آئے یہاں کیسے گوارا کرتے

کون رکھتا ہے اندھیرے میں دیا آنکھ میں خواب

تیری جانب ہی ترے لوگ اشارہ کرتے

ظرفِ آئنہ کہاں اور ترا حسن کہاں

ہم ترے چہرے سے آئنہ سنوارا کرتے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *