اے یارِ دلنشیں! وہ ادا کون لے گیا (جوش ملیح آبادی)

کون لے گیا

اے یارِ دلنشیں! وہ ادا کون لے گیا

تیرے نگیں سے نقشِ وفا کون لے گیا

حل کر دیا تھا جس نے معمہ شباب کا

تجھ سے وہ فکرِ عقدہ کشا کون لے گیا

تھا لطف پہلے قہر میں اب صرف قہر ہے

ظلمت سے موجِ آبِ بقا کون لے گیا

کیوں دفعتاً لبوں پہ خموشی سی چھا گئی

اس سازِ دلنشیں کی صدا کون لے گیا

آنکھوں سے شانِ بذل و سخا کس نے چھین لی

 سینے سے ذوقِ لطف و عطا کون لے گیا

تھیں جس کی رو سے خونِ تمنا میں سرخیاں

رخسار سے وہ رنگِ وفا کون لے گیا

راتوں کو مانگتا تھا دعا میری دید کی

وہ منتیں وہ ذوقِ دعا کون لے گیا

اے شاہِ بندہ پرور و سلطانِ نرم دل

دل سےترے خیالِ  گدا کون لے گیا

پہلی سی وہ کلام میں نرمی نہیں رہی

گفتار سے مزاجِ صبا کون لے گیا

اب جوش کے لئے ہیں نہ آنسو نہ آہِ سرد

اس گلستاں کی آب و ہوا کون لے گیا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *