اک ذرا صبر کہ جبر کے دن تھوڑے ہیں!(سحر عارف)


یاران جہاں کہتے ہیں کشمیر ہے جنت___
جنت کسی کافر کو ملی ہے نہ ملے گی

حسین و خوبصورت، سرسبز وادی کشمیر اللّٰہ پاک کی تخلیق کردہ خوبصورت شاہکاروں میں سے ایک شاہکار ہے۔ اس شاہکار میں موجود پھل، پھول، چرند، پرند، پودے، آبشار، پہاڑ نیز ہر چیز دنیا میں اس کے جنت ہونے کا احساس دلاتے ہیں۔ اس کی خوبصورتی کو دیکھ کہ یوں لگتا ہے جیسے دنیا میں جنت کا ایک ٹکڑا اتر آیا ہو۔ کشمیر کا نام سنتے ہی یہ سب باتیں ہر شخص کے ذہن میں آتی ہونگی۔ مگر اب تو کشمیر کا نام سنتے ہی جنگ، لاشیں، جبری گمشدگیاں، ہراستی قتل، معصوم یتیم بچے، ظلم و جبر کا بازار، خون سے لت پت سڑکیں، ماؤں کی چیختی چلاتی آوازیں، پیلٹ گن سے چھلنی آنکھیں، تباہی و بربادی، عصمت دری کا شکار عورتوں کی زندہ لاشیں، لاپتہ شوہروں کی راہ تکتی عورتیں، بھارت کی درندہ صفت اور معصوم کشمیریوں کی قاتل فوج۔۔۔بس اب یہی کچھ ذہن میں آتا ہے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ آئے روز وہاں ظلم و ستم کا بازار لگتا ہے، مائیں اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے جوان بیٹوں کا قتل ہوتے دیکھتی ہیں، معصوم بچے پیلٹ گن کا شکار ہوکر اپنی آنکھوں کی روشنی کھو دیتے ہیں، عورتوں کی عصمت دری ہوتی ہے، بھارتی فوج درندوں کی طرح انہیں نوچتے اور ان کا خون بہاتے ہیں۔ کشمیری خوف کے سائے میں زندگی گزار رہے ہیں پر افسوس دنیا خاموش تماشائی بنے بیٹھی ہے۔ غیر جانبدار انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق ریاستی دہشتگردی کی اس سے بدترین مثال اور کہیں نہیں ملتی۔ میں پورے وثوق سے آج یہ بات کہہ سکتی ہوں کہ اگر ایسا کسی چار پانچ جانوروں کے ساتھ ہوا ہوتا تو یہی دنیا جو آج خاموش تماشائی بنے بیٹھی ہے یہ “جانوروں کے حقوق” کھول کر بیٹھ جاتے۔ پر افسوس یہاں تو بات کشمیر کی ہے۔

!فنا کے تیر ہوا کے پروں میں رکھے ہیں
کہ ہم گھروں کی جگہ مقبروں میں رکھے ہیں

ہمارے پاؤں سے لپٹا ہے خواہشوں کا سفر
ہمارے سر ہیں کہ بس خنجروں میں رکھے ہیں

ہمارے عہد کا انجام دیکھئے کیا ہوگا
ہم آئینے ہیں مگر پتھروں میں رکھے ہیں

اے زندگی نہ گزرنا ہماری گلیوں سے
ابھی ہمارے جنازے گھروں میں رکھے ہیں

جواز کیا دیں عدالت کو بے گناہی کا
ہمارے فیصلے دانشوروں میں رکھے ہیں

ہمارے سر پہ حقائق کی دھوپ ہے نسرین
حسین خواب تو بس چادروں میں رکھے ہیں


        (نسرین نقاش)

مگر یہاں کچھ قابلِ غور سوالات یہ ہیں کہ اس مشکل وقت میں ایک کشمیری کیا سوچتا ہوگا؟ کشمیر ایک سنگین انسانی المیہ، دنیا کی نظروں سے کیوں اوجھل ہے؟ دنیا کے ایسے حکمران جو مل بیٹھیں تو بڑے سے بڑے مسائل حل ہوجاتے ہیں مگر ان کی زبانوں پہ کشمیر کا مسئلہ اور بھارت کے اس پاگل پن کا ذکر کیوں نہیں آتا؟ آخر کیوں؟ کیا کشمیری انسان نہیں؟ کیا ان کا اس دنیا سے کوئی تعلق نہیں؟ کیا انھیں آزاد فضاؤں میں سانس لینے کا حق نہیں؟ کیا وہ دنیا میں اجنبی ہیں؟ کیا ہم لوگ صرف سال میں کشمیر کے حوالے سے ایک دو دن منا کے ان سے یکجہتی ہی کرتے رہیں گے؟ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ پاکستان نے کبھی کشمیر پر قبضے کا عندیہ نہیں دیا بلکہ پاکستان کا تو ہمیشہ یہ موقف رہا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو اپنے تمام فیصلے کرنے کا اختیار دیا جائے مگر بھارت نے تو اب یہ تک موقف اپنا لیا ہے کہ اقوامِ متحدہ کا کشمیر سے کوئی تعلق نہیں۔ بھارت نے تو 5 اگست 2019 کو تحریک آزادی کی صدا دبانے کی کوشش میں اپنے آئین سے آرٹیکل 370 نکال دیا۔ لیکن بھارت کی اس حرکت پر پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے صاف صاف واضح کر دیا کہ محض کاغذ کے ایک ٹکڑے سے کشمیر کی حقیقت نہیں بدل سکتی۔ کشمیر میں حالات اب آئے روز مزید خراب ہوتے جارہے ہیں۔ ہم سب کو مل کر اکٹھے ہو کر کشمیریوں کی آواز بننا ہوگا انسانی حقوق کے اداروں خصوصاً اقوام متحدہ کو کشمیر کے مسئلے کے لیے عالمی برادری کو اکٹھا کر کے یہ مسئلہ حل کرنا ہوگا اور کشمیریوں کو اب گولی و بارود کی آگ سے نکالنا ہوگا، اقوامِ متحدہ کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کی توجہ کشمیر پر مرکوز کرنی ہوگی اور ایسا تب ممکن ہوگا جب ہم سب خود اکٹھے ہو کر کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہونگے۔ پر یہاں ایک اور افسوس کی بات ہے کہ کشمیر کے مسئلے پر تو خود کچھ پاکستانی سیاسی جماعتوں کے اندر اتحاد نہیں ہے وہ تو کشمیر کے مسئلے پر بھی صرف سیاست کرنا جانتے ہیں۔ خدارا اب سب کو مل کر کشمیر کے مسئلے کو حل کرنا ہوگا اور بھارتی جلادوں کے ظلم سے ان کو نجات دلوانی ہوگی۔ تاکہ کشمیر کی آنے والی نسلیں آزاد فضاؤں میں سانس لے سکیں۔ انشاللہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *