Category «امیر مینائی»

اس کی حسرت ہے، جسے دل سے مٹا بھی نہ سکوں (امیر مینائی)

اس کی حسرت ہے، جسے دل سے مٹا بھی نہ سکوں ڈھونڈنے اس کو چلا ہوں جسے پا بھی نہ سکوں وصل میں چھیڑ نہ اتنا اسے اے شوقِ وصال کہ وہ روٹھے تو کسی طرح منا بھی نہ سکوں ڈال کر خاک مرے خوں پہ ، قاتل نے کہا کچھ یہ مہندی نہیں میری …

گذشتہ خاک نشینوں کی یادگار ہوں میں (امیر مینائی)

گذشتہ خاک نشینوں کی یادگار ہوں میں مِٹا ہوا سا  نشانِ مزار ہوں میں نگاہِ گرم سے مجھ کو نہ دیکھ اے دوزخ خبر نہیں تجھے کس کا گناہ گار ہوں میں پھر اُس کی شانِ کریمی کے حوصلے دیکھے گناہ گار یہ کہہ دے گنہ گار ہوں میں حضور! وصل کی حسرت ازل سے …

طور پر اے تپشِ دل ہیں وہ آنے والے (امیر مینائی)

طور پر اے تپشِ دل ہیں وہ آنے والے آج ہم تجھ کو ہیں بجلی سے لڑانے والے ہم جو پہنچے تو قیامت میں ہوا غُل آئے دھجیاں دامنِ محشر کی اڑانے والے جامِ مے کاتبِ اعمال کو بھی دے  ساقی دو بزرگ آئے ہیں ساتھ اگلے زمانے والے اشکِ خجلت عرقِ شرم تمہیں دونوں …

دیر میں کون ہے کعبے میں گزر کس کا ہے (امیر مینائی)

دیر میں کون ہے کعبے میں گزر کس کا ہے یار کا گھر یہ اگر ہے تو وہ گھر کس کا ہے تیر پر تیر لگاؤ تمہیں ڈر کس کا ہے سینہ کس کا ہے مِری جان جگر کس کا ہے تن درستوں نے قضا کی ہوئے بیمار صحیح پہلے کیا جانیے دنیا سےسفر کس …

ہر دَم جو خونِ تازہ مِری چشمِ تر میں ہے (امیر مینائی)

ہر دَم جو خونِ تازہ مِری چشمِ تر میں ہے ناسور دل میں ہے کہ الٰہی جگر میں ہے واصل سمجھیے اس کو جو سالک ہے عشق میں منزل پہ جانیے اسے جو رہگزر میں ہے ساقی مئے طہور میں کیفیتیں سہی پر وہ مزہ کہاں ہے جو تیری نظر میں ہے دنیائے ثبات میں …

خلوت میں بے خودی سے پتہ ہی کہیں نہیں (امیر مینائی)

خلوت میں بے خودی سے پتہ ہی کہیں نہیں کیا سیر ہوں وہاں کہ  ہمیں ہیں ہمیں نہیں شکوہ جفا کا تم سے کچھ اے نازنیں نہیں ایسے ہی تم میں ہوتے ہیں سب اک تمہیں نہیں عالم سے ان کی انجمنِ ناز ہے الگ چھت جس کی آسماں ہے یہ وہ زمیں نہیں گزرا …

حسنِ مطلق کا ازل کے دن سے میں دیوانہ تھا (امیر مینائی)

حسنِ مطلق کا ازل کے دن سے میں دیوانہ تھا لامکاں کہتے ہیں جس کو وہ مِرا کاشانہ تھا دل کا حاکم جاں کا مالک غمِ جانانہ تھا میہماں جس کو میں سمجھا تھا وہ صاحب خانہ تھا دیر کی تحقیر کر اتنی نہ اے شیخِ حرم آج کعبہ بن گیا کل تک یہی بت …