Category «آنس معین»

یہ قرض تو میرا ہے چکائے گا کوئی اور (آنس معین)

یہ قرض تو میرا ہے چکائے گا کوئی اور دکھ مجھ کوہے اور نیر بہائے گا کوئی اور کیا پھر یوں ہی دی جائے گی اجرت پہ گواہی کیا تیری سزا اب کے بھی پائے گا کوئی اور انجام کو پہنچوں گا میں انجام سے پہلے خود میری کہانی بھی سنائے گا کوئی اور تب …

وہ میرے حال پہ رویا بھی مسکرایا بھی (آنس معین)

وہ میرے حال پہ رویا بھی مسکرایا بھی عجیب شخص ہے اپنا بھی ہے پرایا بھی یہ انتظار سحر کا تھا یا تمہارا تھا دیا جلایا بھی میں نے دیا بجھایا بھی میں چاہتا ہوں ٹھہر جائے چشمِ دریا میں لرزتا عکس تمہارا بھی میرا سایا بھی بہت مہین تھا پردہ لرزتی آنکھوں کا مجھے …

یہ اور بات کہ رنگِ بہار کم ہو گا (آنس معین)

یہ اور بات کہ رنگِ بہار کم ہو گا نئی رتوں میں درختوں کا بار کم ہو گا تعلقات میں آئی ہے بس یہ تبدیلی ملیں گے اب بھی مگر انتظار کم ہو گا میں سوچتا رہا کل رات بیٹھ کر تنہا کہ اس ہجوم میں میرا شمار کم ہو گا پلٹ تو آئے گا …

عجب تلاشِ مسلسل کا انجام ہوا (آنس معین)

عجب تلاشِ مسلسل کا انجام ہوا حصول رزق ہوا بھی تو زیرِ دام ہوا تھا انتظار منائیں گے مل کے دیوالی نہ تم ہی لوٹ کے آئے نہ وقتِ شام ہوا ہر ایک شہر کا معیار مختلف دیکھا کہیں پہ سر کہیں پگڑی کا احترام ہوا ذرا سی عمر عداوت کی لمبی فہرستیں عجیب قرض …

جیون کو دکھ، دکھ کو آگ اور آگ کو پانی کہتے (آنس معین)

جیون کو دکھ، دکھ کو آگ اور آگ کو پانی کہتے بچے لیکن سوئے ہوئے تھے، کس سے کہانی کہتے سچ کہنے کا حوصلہ تم نے چھین لیا ہے، ورنہ شہر میں پھیلی ویرانی کو سب ویرانی کہتے وقت گزرتا جاتا اور یہ زخم ہرے رہتے ، تو بڑی حفاظت سے رکھی ہے، تیری نشانی …

اک کربِ مسلسل کی سزا دیں تو کسے دیں (آنس معین)

اک کربِ مسلسل کی سزا دیں تو کسے دیں مقتل میں ہیں جینے کی سزا دیں تو کسے دیں پتھر ہیں سبھی لوگ کریں بات تو کس سے اس شہرِ خموشاں میں صدا دیں تو کسے دیں ہے کون کہ جو خود کو ہی جلتا ہوا دیکھے سب ہاتھ ہیں کاغذ کے دیا دیں تو …

ہو جائے جب تم سےشناسائی ذرا اور (آنس معین)

ہو جائے جب تم سےشناسائی ذرا اور بڑھ جائے شاید مری تنہائی ذرا اور اک ڈوبتی دھڑکن کی صدا لوگ سن نہ لیں کچھ دیر کو بجنے دو یہ شہنائی ذرا اور ہے دیپ تری یاد کا روشن ابھی دل میں یہ خوف ہے لیکن جو ہوا آئی ذرا اور پھر ہاتھ پہ زخموں کے …