Category «پروین شاکر»

دعا کا ٹوٹا ہوا حرف سرد آہ میں ہے (پروین شاکر)

  دعا کا ٹوٹا ہوا حرف سرد آہ میں ہے تری جدائی کا منظر ابھی نگاہ میں ہے   ترے بدلنے کے باوصف تجھ کو چاہا ہے یہ اعتراف بھی شامل مرے گناہ میں ہے   عذاب دے گا تو پھر مجھ کو خواب بھی دے گا میں مطمئن ہوں مرا دل تری پناہ میں …

اس بچے نے پہلی بار اُٹھایا ہے قلم (پروین شاکر)

اپنے بیٹے کے لیے ایک نظم   اس بچے نے پہلی بار اُٹھایا ہے قلم اور پوچھتا ہے کیا لکھوں مما میں تجھ سے کیا کہوں بیٹے کہ اب سے برسوں پہلے یہ لمحہ جب مری ہستی میں آیا تھا تو میرے باپ نے مجھ کو سکھائے تھے محبت ، نیکی، اور سچائی کے کلمے …

اپنے  سرد  کمرے  میں (پروین شاکر)

صرف ایک لڑکی اپنے  سرد  کمرے  میں میں اُداس  بیٹھی  ہوں نیم وا دریچوں سے نم ہوائیں آتی ہیں میرے جسم کو چھو کر آگ سی لگاتی ہیں تیرا نام لے لے کر مجھ کو گدگداتی ہیں کاش میرے پَر ہوتے میں اُڑ کر چلی آتی کاش میں ہوا ہوتی تجھ کو چُھو کے لوٹ آتی …

دھنک دھنک مری پوروں کو خواب کر دے گا (پروین شاکر)

  دھنک دھنک مری پوروں کو خواب کر دے گا وہ لمس میرے بدن کو گلاب کر دے گا   جنوں پسند ہے دل اور تجھ تک آنے میں بدن کو ناؤ ، لہو کو چناب کر دے گا   میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی وہ جھوٹ بولے گا ، …

ٹوٹی  ہے میری نیند مگر تم کو اس سے کیا! (پروین شاکر)

ٹوٹی  ہے میری نیند مگر تم کو اس سے کیا! بجتے رہیں ہواؤں سے در تم کو اس سے کیا!   تم موج موج مثلِ  صبا گھومتے رہو کٹ جائیں کسی کی سوچ کے پر تم کو اس سے کیا      اوروں کا ہاتھ تھامو انہیں راستہ دکھاؤ میں بھول جاؤں اپنا ہی گھر …

سبز مدھم روشنی میں سُرخ آنچل کی دھنک (پروین شاکر)

  ایکسٹیسی    سبز مدھم روشنی میں سُرخ آنچل کی دھنک سرد کمرے میں مچلتی گرم سانسوں کی مہک بازوؤں کے سخت حلقے میں کوئی نازک بدن سلوٹیں ملبوس پر ، آنچل بھی کچھ ڈھلکا ہوا گرمئی رخسار سے دہکی ہوئی ٹھنڈی ہوا نرم زلفوں سے ملائم انگلیوں کی چھیڑ چھاڑ سُرخ ہونٹوں پر شرارت …

شکن چپ ہے (پروین شاکر)

پہلے پہل شکن چپ ہے بدن خاموش ہے گالوں پہ ویسی تمتماہٹ بھی نہیں، لیکن میں گھر سے کیسے نکلوں گی ہوا ، چنچل سہیلی کی طرح باہر کھڑی ہے دیکھتے ہی مسکرائے گی ! مجھے چھو کر تری ہر بات پا لے گی تجھے مجھ سے چرا لے گی زمانے بھر سے کہہ دے …

وہ تو خوشبو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا (پروین شاکر)

  وہ تو خوشبو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا   ہم تو سمجھے تھے کہ اک زخم ہے بھر جائے گا کیا خبر تھی کہ رگِ جاں میں اتر جائے گا   وہ ہواؤں کی طرح خانہ بجاں پھرتا ہے ایک جھونکا ہے جو آئے گا …