Category «افتخار نسیم»

گرے ہیں لفظ ورق پہ لہو لہو ہو کر (افتخار نسیم)

گرے ہیں لفظ ورق پہ لہو لہو ہو کر محاذ زیست سے لوٹا ہوں سرخ رو ہو کر اسی کی دید کو اب رات دن تڑپتے ہیں کہ جس سے بات نہ کی ہم نے دو بدو ہو کر بجھا چراغ ہے دل کا وگرنہ کیسے مجھے نظر نہ آئے گا وہ میرے چار سو …

نہ جانے کب وہ پلٹ آئیں در کھلا رکھنا (افتخار نسیم)

نہ جانے کب وہ پلٹ آئیں در کھلا رکھنا گئے ہوئے کے لیے دل میں کچھ جگہ رکھنا ہزار تلخ ہوں یادیں مگر وہ جب بھی ملے زباں پہ اچھے دنوں کا ہی ذائقہ رکھنا نہ ہو کہ قرب ہی پھر مرگ ربط بن جائے وہ اب ملے تو ذرا اس سے فاصلہ رکھنا اتار …

چاند پھر تاروں کی اجلی ریز گاری دے گیا (افتخار نسیم)

چاند پھر تاروں کی اجلی ریز گاری دے گیا رات کو یہ بھیک کیسی خود بھکاری دے گیا ٹانکتی پھرتی ہیں کرنیں بادلوں کی شال پر وہ ہوا کے ہاتھ میں گوٹا کناری دے گیا کر گیا ہے دل کو ہر اک واہمے سے بے نیاز روح کو لیکن عجب سی بے قراری دے گیا …

ہاتھ ہاتھوں میں نہ دے بات ہی کرتا جائے (افتخار نسیم)

ہاتھ ہاتھوں میں نہ دے بات ہی کرتا جائے ہے بہت لمبا سفر یوں تو نہ ڈرتا جائے جی میں ٹھانی ہے کہ جینا ہے بہرحال مجھے جس کو مرنا ہے وہ چپ چاپ ہی مرتا جائے خود کو مضبوط بنا رکھے پہاڑوں کی طرح ریت کا آدمی اندر سے بکھرتا جائے سرخ پھولوں کا …

اس کے چہرے کی چمک کے سامنے سادہ لگا (افتخار نسیم)

اس کے چہرے کی چمک کے سامنے سادہ لگا آسماں پہ چاند پورا تھا مگر آدھا لگا جس گھڑی آایا پلٹ کر اک میرا بچھڑا ہوا عام سے کپڑوں میں تھا وہ پھر بھی شاہزادہ لگا ہر گھڑی تیار ہے دل جاں دینے کے لیے اس نے پوچھا بھی نہیں یہ پھر بھی آمادہ لگا …