Category «نوشی گیلانی»

یہ دل بھلاتا نہیں ہے محبتیں اس کی (نوشی گیلانی)

یہ دل بھلاتا نہیں ہے محبتیں اس کی پڑی ہوئی تھیں مجھے کتنی عادتیں اس کی یہ میرا سارا سفر اس کی خوشبوؤں میں کٹا مجھے تو راہ دکھاتی تھیں چاہتیں اس کی گھری ہوئی ہوں میں چہروں کی بھیڑ میں لیکن کہیں نظر نہیں آتیں شباہتیں اس کی میں دور ہونے لگی ہوں تو …

مہتاب رتیں آئیں تو کیا کیا نہیں کرتیں (نوشی گیلانی)

مہتاب رتیں آئیں تو کیا کیا نہیں کرتیں اس عمر میں تو لڑکیاں سویا نہیں کرتیں کچھ لڑکیاں انجام نظر میں ہوتے ہوئے بھی جب گھر سے نکلتی ہیں تو سوچا نہیں کرتیں یاں پیاس کا اظہار ملامت ہے گنہ ہے پھولوں سے کبھی تتلیاں پوچھا نہیں کرتیں قسمت جنہیں کردے شب ظلم کے حوالے …

کہاں تک خیمۂ دل میں چھپائیں (نوشی گیلانی)

ہجر کے پر بھیگ جائیں کہاں تک خیمۂ دل میں چھپائیں اپنی آسوں اور پیاسوں کو کہاں تک خوف کے بے شکل صحرا کی ہتھیلی پر کریدے جائیں آنکھیں اور لکیریں روشنی کی پھر نہ بن پائیں ہم انساں ہو کے بھی سائے کی خوشبو کو ترس جائیں چلو اک دوسرے کی خواہشوں کی دھوپ …

بچھڑتے لمحوں میں (نوشی گیلانی)

ایک جیسا مکالمہ بچھڑتے لمحوں میں اس نے مجھ سے کہا تھا دیکھو ”ہماری راہیں جدا جدا ہیں مگر ہمیں ایک دوسرے کا خیال رکھنا ہے زندگی بھر کسی بھی لمحہ اداسیوں کی فصیل حائل نہ ہونے دینا ہوا کے ہاتھوں پہ لکھتے رہنا جدائیوں کے تمام قصے قدم قدم پر جو پیش آئیں وہ …

ہوا کو آوارہ کہنے والو (نوشی گیلانی)

ہوا کو آوارہ کہنے والو ہوا کو آوارہ کہنے والو کبھی تو سوچو، کبھی تو لکھو ہوائیں کیوں اپنی منزلوں سے بھٹک گئی ہیں نہ ان کی آنکھوں میں خواب کوئی نہ خواب میں انتظار کوئی اب ان کے سارے سفر میں صبح یقین کوئی نہ شام صد اعتبار کوئی نہ ان کی اپنی زمین …

میں تنہا ہجر کے جنگل کے غاروں میں (نوشی گیلانی)

مری آواز سنتے ہو میں تنہا ہجر کے جنگل کے غاروں میں جلاتی ہوں سخن کے وہ دیئے جن کو ابھی باہر کی زہریلی ہوائیں اجنبی محسوس کرتی ہیں ابھی یہ روشنی جو سچ کی خوشبو کی حفاظت کے لیے تاریکیوں سے لڑ رہی ہے، نا شناسی کے غبار آلود رستوں سے گزرتی ہے ابھی …

ہمیں کس ہاتھ کی محبوب ریکھاؤں میں رہنا تھا (نوشی گیلانی)

سمجھ میں کچھ نہیں آتا ہمیں کس ہاتھ کی محبوب ریکھاؤں میں رہنا تھا کس دل میں اترنا تھا چمکنا تھا کن آنکھوں میں کہاں پر پھول بننا تھا تو کب خوشبو کی صورت کوئے جاناں سے گزرنا تھا سمجھ میں کچھ نہیں آتا ہمیں کس قریۂ آب و ہوا کے سنگ رہنا تھا کہاں …

وہ بات بات میں اتنا بدلتا جاتا ہے (نوشی گیلانی)

وہ بات بات میں اتنا بدلتا جاتا ہے کہ جس طرح کوئی لہجہ بدلتا جاتا ہے یہ آرزو تھی کہ ہم اس کے ساتھ ساتھ چلتے مگر وہ شخص تو راستہ بدلتا جاتا ہے رُتیں وصال کی اب خواب ہونے والی ہیں کہ اس کی بات کا لہجہ بدلتا جاتا ہے رہا جو دھوپ میں …

تجھ سے اب اور محبت نہیں کی جا سکتی (نوشی گیلانی)

تجھ سے اب اور محبت نہیں کی جا سکتی خود کو اتنی بھی اذیت نہیں دی جا سکتی جانتے ہیں کہ یقیں ٹوٹ رہا ہے دل پر پھر بھی اب ترک یہ وحشت نہیں کی جا سکتی حبس کا شہر ہے اور اس میں کسی بھی صورت سانس لینے کی سہولت نہیں دی جا سکتی …

وصال رُت کی یہ پہلی دستک ہی سرزنش ہے (نوشی گیلانی)

اداس شام کی ایک نظم وصال رُت کی یہ پہلی دستک ہی سرزنش ہے کہ ہجر موسم نے رستے رستے سفر کا آغاز کر دیا ہے تمہارے ہاتھوں کا لمس جب بھی مری وفا کی ہتھیلیوں پرحنا بنے گا تو سوچ لوں گی رفاقتوں کا سنہرا سورج غروب کے امتحان میں ہے ہمارے باغوں میں …