عمر بھر ہم رہے شرابی سے (میر تقی میر)

عمر بھر ہم رہے شرابی سے

دلِ پُر خوں کی اک گلابی سے

جی ڈھا جائے  ہے سحر سے آہ

رات گزرے گی کس خرابی سے

کھِلنا کم کم کلی نے سیکھا ہے

اُس کی آنکھوں کی نیم خوابی سے

کام تھے عشق میں بہت پر میر

ہم ہی فارغ ہوئے شتابی سے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *