چوکھنڈی کے مقبرے

چوکنڈی یا چوکھنڈی کا تاریخی قبرستان کراچی سے 25 کلو میٹر دور ٹھٹھہ جانے والی قومی شاہراہ کے بائیں جانب واقع ہے ملیر ندی کے گرد و نواح میں تقریباً دو کلومیٹر کے رقبے پر پھیلے ہوئے اس قبرستان کو مقامی لوگ “چوکنڈی” کہتے ہیں ۔ یہ مستطیل نما قبریں قطار در قطار اس عہد کی پاسداری میں ایستادہ ہیں ۔ ان میں استعمال ہونے والا پیلا پتھر ٹھٹھہ کے ایک تاریخی قصبہ جھنگ شاہی سے لایا گیا ہے ۔ ان قبروں کے خوبصورت نقش و نگار اور منفرد طرزِ تعمیر نے ماہرینِ آثارِ قدیمہ کے لئے تجسس کی نئی راہیں کھول دی ہیں ۔ اور سب سے پہلا سوال جو ان کے ذہنوں میں ابھرا وہ اس قبرستان کے نام کے بارے میں تھا ۔

تحقیق طلب مسئلہ یہ ہے کہ اس کا نام چوکھنڈی یا چوکنڈی کس وجہ سے پڑا ہے اس بارے میں مختلف محققین کی مختلف آراء ہیں ۔  جناب ممتاز حسین کے خیال میں چو سے مراد چار اور کھنڈ سے مراد کنارے یا ستون لیا گیا ہے لیکن چوکھنڈی کے اس قبرستان میں بعض قبریں بارہ ستونوں پر بھی مشتمل ہیں ۔ بعض محققین کا خیال ہے کہ چوکھنڈی قبرستان کا نام نہیں بلکہ ان لوگوں کے آبائی وطن کا نام ہے ۔

ماہرین کے ذہنوں میں ابھرنے والا دوسرا سوال یہ تھا کہ ان شاندار قبروں میں کون لوگ دفن ہیں ۔ چوکھنڈی کی قبروں پر لگی تختیوں کا بغور مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ ان قبروں کا تعلق مختلف ادوار اور قبائل سے ہے کیونکہ اس قبرستان میں محققین کو بیک وقت تین قسم کی قبریں ملی ہیں ۔

1۔ پہلی قسم کی قبروں کے بارے میں محققین کا خیال ہے جو ادھر ادھر بے نام و نشان بکھری پڑی ہیں یہ مسلمانوں کی قبریں ہیں ۔

2۔ دوسری وہ قبریں ہیں جن کی درمیانی منزل سے ہڈیاں ملی ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ان قبروں کے وارث وہ لوگ ہیں جو اپنے مردوں کو زیرزمین نہیں دفناتے تھے ۔

3۔ قبروں کی تیسری قسم وہ ہے جن پر جنگ کے دوران استعمال ہونے والے ہتھیار مثلاً نیزے یا تلواریں بنی ہوئی ہیں ان قبروں سے ہڈیاں نہیں ملیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا طریقہ کار زیر زمین دفنانے کا تھا ۔ قبرستان کے مغربی حصے میں پائی جانے والی قبریں زیادہ قدیم ہیں ۔ یہاں کی مقامی روایت کے مطابق ان کا تعلق جوکھیو قبیلے سے ہے ۔

  بعض مؤرخین کے مطابق سولہویں صدی کے اختتام پر صرف دو قبیلے ملیر کے علاقے پر حکمران تھے ایک کلمی اور دوسرا برنت، سترھویں صدی کے اوائل میں جوکھیو قبیلے کی چند افراد کوہستانی علاقوں سے نقل مکانی کر کے ملیر کے علاقے میں آباد ہونے لگے ۔ آہستہ آہستہ جوکھیو قبیلے کی آبادی میں اضافہ ہونے لگا ۔ جوکھیو قبیلے کے لوگ اپنی خوشحالی کی وجہ سے اپنی آمدنی کا بیشتر حصہ مرحومین اکی ان قبروں پرقیمتی پتھر جڑوانے اور نقش و نگار کندہ کروانے کے لئے وقف کر کے قلمتیوں پر سبقت لے جارہے تھے ۔ اور کلمتی قبیلے جنہوں نے ابھی تک جوکھیو قبیلے کو مساوی درجہ نہیں دیا تھا اور جو اس قبرستان پر اپنی اجارہ داری سمجھتے تھے میں دشمنی کی آگ بھڑک اٹھی اور ایک دن اچانک انہوں نے ان مقبروں پرحملہ کر دیا ۔ اس وقت جوکھیو قبیلے کے لوگ کھیتوں میں کام کر رہے تھے اطلاع ملنے پر وہ بھی مقابلے کے لئے تیار ہو گئے لیکن نہ وہ منظم تھے اور نہ باقاعدہ تیاری سے آئے تھے ، اس لئے اس جنگ میں جو صبح سے رات گئے تک جاری رہی جوکھیو قبیلے کو بہت نقصان اٹھانا پڑا ۔ جوکھیو قبیلے کے اس وقت کے سرداد جام مرید جان جوکھیو بن حاجی جوکھیو نے بہت بہادری کا مظاہرہ کیا اور جنگ میں اس کی ایک ٹانگ ضائع ہوگئی لیکن اس نے زخمی ٹانگ کے ساتھ بھی مقابلہ جاری رکھا ۔

  ان قبائلی جنگوں کے بعد کلمتی قبیلہ  اپنے سردار بھنبھور خان کے ساتھ ملیر سےنقل مکانی کر کے میرپور میں آباد ہو گئے ۔ جنگ میں مرنے والوں کے اعزاز میں جوکھیو قبیلے کے افراد نے مشترکہ طور پر فیصلہ کیا کہ انہیں شاندار طریقے سے دفنایا جائے ۔ اس سلسلہ میں ٹھٹھہ سے بہت سے ماہر کاریگر (معمار) بلوائے گئے جنہوں نے پتھروں پر بہترین نقش و نگار بنا کر ان مقبروں کو تیار کیا ۔ ان مقبروں کے خوبصورت نقش و نگار نے ماہرین اثار قدیمہ کے لئے تحقیق کی نئی راہیں کھول دی ہیں ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *