کہیں ساقی کا فیض عام بھی ہے (وامق جونپوری)

کہیں ساقی کا فیض عام بھی ہے

کسی شیشے پہ میرا نام بھی ہے

وہ چشم مست مئے بھی جام بھی ہے

پھرے تو گردش ایام بھی ہے

نوائے چنگ و بربط سننے والو

پس پردہ بڑا کہرام بھی ہے

مری فرد جنوں پہ اے بہارو

گواہوں میں خزاں کا نام بھی ہے

نہ پوچھو بے بسی اس تشنہ لب کی

کہ جس کی دسترس میں جام بھی ہے

محبت کی سزا ترک محبت

محبت کا یہی انعام بھی ہے

نگاہ شوق ہے گستاخ لیکن

نگاہ شوق کچھ بدنام بھی ہے

نگاہوں کا تصادم کس نے دیکھا

مگر یہ راز طشت از بام بھی ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *