Category «شہریار»

یہ کیا ہے محبت میں تو ایسا نہیں ہوتا (شہریار)

یہ کیا ہے محبت میں تو ایسا نہیں ہوتا میں تجھ سے جدا ہو کے بھی تنہا نہیں ہوتا اس موڑ سے آگے بھی کوئی موڑ ہے ورنہ یوں میرے لیے تو کبھی ٹھہرا نہیں ہوتا کیوں میرا مقدر ہے اجالوں کی سیاہی کیوں رات کے ڈھلنے پہ سویرا نہیں ہوتا یا اتنی نہ تبدیل …

یہ جگہ اہلِ جنوں اب نہیں رہنے والی (شہریار)

یہ جگہ اہلِ جنوں اب نہیں رہنے والی فرصتِ عش میسر کہاں پہلے والی کوئی دریا ہو کہیں جو مجھے سیراب کرے ایک حسرت ہے جو پوری نہیں ہونے والی وقت کوشش کرے میں چاہوں مگر یاد تری دھندلی ہو سکتی ہے دل سے نہیں مٹنے والی اب مرے خوابوں کی باری ہے یہی لگتا …

کس کس طرح سے مجھ کو نہ رسوا کیا گیا (شہریار)

کس کس طرح سے مجھ کو نہ رسوا کیا گیا غیروں کا نام میرے لہو سے لکھا گیا نکلا تھا میں صدائے جرس کی تلاش میں دھوکے سے اس سکوت کے صحرا میں آ گیا کیوں آج اس کا ذکر مجھے خوش نہ کر سکا کیوں آج اس کا نام مرا دل دکھا گیا میں …

یہ قافلے یادوں کے کہیں کھو گئے ہوتے (شہریار)

یہ قافلے یادوں کے کہیں کھو گئے ہوتے اک پل بھی اگر بھول کے ہم سو گئے ہوتے اے شہر ترا نام و نشاں بھی نہیں ہوتا جو حادثے ہونے تھے اگر ہو گئے ہوتے ہر بار پلٹے ہوئے گھر کو یہی سوچا اے کاش کسی لمبے سفر کو گئے ہوتے ہم خوش ہیں ہمیں …

یہ جب ہے کہ اک خواب سے رشتہ ہے ہمارا (شہریار)

یہ جب ہے کہ اک خواب سے رشتہ ہے ہمارا دن ڈھلتے ہی دن ڈوبنے لگتا ہے ہمارا چہروں کے سمندر سے گزرتے رہے پھر بھی اک عکس کو آئینہ ترستا ہے ہمارا ان لوگوں سے کیا کہیے کہ کیا بیت رہی ہے احوال مگر تو توسمجھتا ہے ہمارا ہر موڑ پہ پڑتا ہے ہمیں …

کہنے کو تو ہر بات کہی تیرے مقابل (شہریار)

کہنے کو تو ہر بات کہی تیرے مقابل لیکن وہ فسانہ جو مرے دل پہ رقم ہے محرومی کا احساس مجھے کس لئے ہوتا حاصل ہے جو مجھ کو کہاں دنیا کو بہم ہے یا تجھ سے بچھڑنے کا نہیں حوصلہ مجھ میں یا تیرے تغافل میں بھی اندازِ کرم ہے تھوڑی سی جگہ مجھ …

کھلے جو آنکھ کبھی دیدنی یہ منظر ہیں (شہریار)

کھلے جو آنکھ کبھی دیدنی یہ منظر ہیں سمندر کے کناروں پہ ریت کے گھر ہیں نہ کوئی کھڑکی نہ دروازہ واپسی کے لیے مکانِ خواب میں جانے کے سینکڑوں در ہیں گلاب ٹہنی سے ٹوٹا زمیں پر نہ گرا کرشمے تیز ہوا کے سمجھ سے باہر ہیں کوئی بڑا ہے نہ چھوٹا سراب سب …

کارِ دنیا سے فرومایہ محبت نکلی (شہریار)

کارِ دنیا سے فرومایہ محبت نکلی اہلِ دل میں بھی بہت جینے کی حسرت نکلی تم کہو زیست کو کس رنگ میں دیکھا تم نے زندگی اپنی تو خوابوں کی امانت نکلی پھر کوئی منزلِ بے نام بلاتی ہے ہمیں رہنمائی کے لئے دھوپ کی شدت نکلی پاس کی چیزوں پہ دوری کے دھندلکے چھائے …

سینے میں جلن آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے؟ (شہریار)

سینے میں جلن آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے؟ اِس شہرمیں ہر شخص پریشان سا کیوں ہے؟ دل ہے تو دھڑکنے کا بہانہ کوئی ڈھونڈے پھر کی طرح بے حس و بے جان سا کیوں ہے؟ تنہائی کی یہ کون سی منزل ہے رفیقو؟ تا حدِ نظر ایک بیابان سا کیوں ہے؟ کیا کوئی نئی …

جب بھی ملتی ہے مجھے اجنبی لگتی کیوں ہے (شہریار)

جب بھی ملتی ہے مجھے اجنبی لگتی کیوں ہے زندگی روز نئے رنگ بدلتی کیوں ہے دھوپ کے قہر کا ڈر ہے تو دیارِ شب سے سر برہنہ کوئی پرچھائی نکلتی کیوں ہے مجھ  کو اپنا نہ کہا اس کا گلہ تجھ سے نہیں اس کا شکوہ ہے کہ بیگانہ سمجھتی کیوں ہے تجھ سے …