میرا باپ

میں نے اس کے پاؤں پکڑے رو رو کر منت سماجت کی۔ بابا خدا کے لئے مت جاؤ مگر مجھے لاے مار کر پرے کر دیا چھوٹا بھائی اس کی ٹانگوں سے لپٹ گیا بابا مت جاؤ۔ اس نے اسے بھی بلی کے بچے کی طرح جھٹک دیا ماں دوڑ

کر آئی اور اپنی چادر اس کے قدموں میں ڈال کر گڑگڑائی  تمہیں ان  بچوں کی قسم مت جاو مگر اسے بھی دھکا دے کر اپنے راستے سے ہٹا دیا ۔  وہ پشتون تھا ۔  اپنے پشتون ہونے کے غرور میں تھا۔ غیرت اور غصے سے پاگل ہو رہا تھا کسی ایک کی نہ سنی۔ پگڑی سر پر رکھی  اور بندوق اٹھا کر جانے لگا سب اس کے پیچھے دروازے تک دوڑے مگر وہ پلک جھپکنے میں گلی کا موڑ مڑ چکا تھا۔

 میری عمر اس وقت 12 برس تھی اور اختر میرا چھوٹا بھائی آٹھ برس کا تھا وہ تو شام تک روتے روتے سو گیا مگر میں اب تک رو رہی ہوں اور جب تک یہ آنکھیں کھلی ہیں یوں ہی آنسو بہاتی رہوں گی

 میرا بابا گل میر کے پیچھے گیا تھا آج اس نے مسجد میں بابا سے تلخ کلامی کی تھی۔  آج چاچا نے بابا کو سمجھایا بھی تھا کہ جب تک فیصلہ نہیں ہوجاتا تم درخت نہ کاٹو۔  مگر بابا کب ماننے والا تھا کہنے لگا۔  زمین میری اور مالک وہ اور پھر جب گل میر نے بابا کو آنکھیں دکھا کر للکارا کہ اگر زبردستی مجھ سے لے سکتے ہو تو لے کر دکھاؤ اس کا جواب دینے کے لئے بابا نے بندوق اٹھا لی اور ہمارے روکنے کے باوجود وہ نہ رکا۔

گل میر  کے دونوں بیٹے گھر کے سامنے بھوسہ  اکٹھا کرکے اس پر گیلی مٹی کا لیپ کر رہے تھے بابا نے وہیں ان دونوں کا کام تمام کردیا۔

 اس وقت اختر گھر میں سویا ہوا تھا کہ اچانک چیخ مار کر اٹھ بیٹھا جیسے کسی ان دیکھی طاقت نے اسے آنے والے خطرات سے آگاہ کیا ہو ماں نے  دوڑ کر اسے اپنے سینے سے لگایا اور تھپک تھپک کرسلا دیا۔  مگر ہم دونوں صبح تک جاگتی رہیں۔ کبھی کبھی رات کے اندھیرے میں کتے بھونکتے اور ہمارے دل دھک سے رہ جاتے۔ ساری رات کتے بھونکتے رہے اور ہمارے دل خوف سے کانپتے رہے۔  بابا دو جوانوں کے خون سے ہاتھ رنگنے کے بعد مفرور تھا۔  دیکھتے دیکھتے وقت بدل گیا لوگوں کوزبانیں لگ گئیں۔  گاؤں کے لوگ جب گل میرکے ہاں دعا کے لئے جاتے تو کہتے بڑا ظلم ہوا ہے
وہی لوگ جب ہمارے ہاں آتےتو کہتے   بہت برا ہوا۔

بات ایک ہی تھی  صرف الفاظ بدلے ہوئے تھے۔  مگر ہیر پھیر سے معنی نہیں بدل جاتے۔  بابا کہاں   تھا اسکی نہ مجھے خبر تھی نہ ماں کو مگر مجھے اتنا  یقین تھا کہ وہ جہاں کہیں بھی ہو گا اب تک اس کا غصہ ٹھنڈا ہو چکا ہوگا اور وہ سوچ رہا ہوگا کہ یہ میں نے کیا کیا۔  اس کا ضمیراب  اسے ملامت کر رہا ہوگا۔  غیرت  کا ٹھاٹھیں مارتا سمندراب پرسکون ہو چکا ہو گا۔  اور اس کی انا اسکی پشتونیت ۔۔۔۔ ہو سکتا ہے اب تک وہ بھی مثبت سوچ میں  بدل گئی ہو۔

 ہمارا گاؤں عزیزوں کا گاؤں کہلاتا ہے بڑے بڑے معاملات عزیزوں کے جرگے میں حل کیے جاتے ہیں۔  ایک بار پھر عزیزوں نے سر جوڑ لئے۔  ایک بڑے جرگے کے لئے چھوٹے چھوٹے جرگے تیاری کرنے لگے اور آخر ایک ماہ کی سرگوشیوں اور سر جوڑنے والوں کی کوششوں سے ان  چھوٹے جرگوں نے بابا کا کا پتہ لگا لیا اور پھر صلح کی راہ نکالنے میں لگ گئے۔

 جب سے یہ واقعہ ہوا تھا ماں کا رویہ میرے ساتھ بدلا بدلا سا تھا اس کے دل میں جو خوف موجود تھا اس واقعہ کے بعد بڑھتا گیا اور مجھ سے محبت بھی وہ مجھے زیادہ توجہ دینے لگی میرا زیادہ خیال رکھنے لگی۔  عجیب بے سروپا سی باتیں کرتی  کبھی تقدیر کی بات کرتی تو کبھی حالات سے سمجھوتا کرنے کا ذکر کرتی۔  کچھ بے ربط اور غیر واضح سی نصیحتیں کرتی۔  کبھی کبھی ایسی نظروں سے دیکھتی جیسے سمندر میں ڈوب رہی ہوں اور وہ ساحل پر کھڑی بے بسی سےتماشہ دیکھ رہی ہے

آج ھمارے گھر بہت سے رشتہ دار جمع ہوئے سب کی نظریں بدلی بدلی سی تھیں سب کی آنکھوں میں بے بسی اور چہروں پر مظلومیت کے سائے تھے۔ شائد آج ہونے والے جرگے کا ا  کا اثر تھا مگر میں سوچ رہی تھی آج تو جرگے میں  فیصلہ ہونا ہے اب دونوں خاندانوں میں صلح ہوجائے گی۔  یہ تو خوشی کا مقام ہے۔  پھر سب لوگ اتنے خوفزدہ کیوں ہیں لیکن میں نادان تھی اس لیے سمجھ نی سکی۔  مجھے تو اس وقت سب کے چہروں پر چھائی ہوئی زردی اور مردنی کی وجہ کا پتہ چلا جب جرگے نے اپنے فیصلے کی شرائط کا اعلان کیا

 اور میرا باپ جس کے غصے کی چنگاریاں اب تک ٹھنڈی پڑ چکی تھیں اورغیرت کے سمندر کی موجیں بھی اب ساحل کی گرم ریت میں جذب ہو چکی تھیں اس نے جرگے کی تمام شرائط مان لیں

اعلان ہوا ایک لاکھ روپیہ اور ایک لڑکی

کسی نے آواز لگائی مگر گل میر کے تو دونوں لڑکے مارے گئے اب یہ لڑکی۔۔۔۔۔

دوسرے نے اس کی بات ختم ہونے سے پہلے جواب دیا جرگے کا فیصلہ ہے ایک لاکھ روپیہ اور ایک لڑکی گل میر کو دے دیئے جائیں اب یہ اس کی مرضی ہے کہ وہ ان کا کیا کرتا ہے

کسی تیسری طرف سے آواز آئی  گل میر بھی تو رنڈوا ہے

میری چیخ تو حلق میں پھنس کر رہ گئی مگر ماں نے ایک دلدوز چیخ مار کر مجھے گلے سے لگا لیا

 

                                                                                                           

                                                                                                              (پشتو  سے ترجمہ)                                        

                                                                                                                           

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *