مشتاق احمد یوسفی

مسٹر اینڈرسن نے آخری مرتبہ بڑی دھیرج سے سوال کیا:" تم اس پیشے میں کیوں آنا چاہتے ہو ؟  میں یہ سوال تمہیں انٹرویو میں فیل کرنے کے لئے نہیں پوچھ رہا ہوں ۔ اگر یہی منشا ہوتا تو میں یہ بھی پوچھ سکتا تھا کہ بتائو اس کتے کے والد کا کیا نام ہے ؟ ہو!ہو!ہو! ۔

میراتقرر مسٹر ایم- اے اصفہانی نے اورینٹ ایئر ویز میں کیا تھا ۔ میں سول سروس چھوڑ کر ہندوستان  سےکراچی آیا۔ یہاں معلوم ہوا کہ حال ہی میں ایک ہوائی جہاز گر گیا ہے ۔ 

تم پائلٹ ہو؟

نہیں تو ! ایئر کریش میں وفات پانے کے لئے پائلٹ ہونا ضروری نہیں ۔

You 're telling me!

سر مجھے تو یوں بھی ہوائی جہاز سے نفرت ہے ۔ ہم نے جھوٹ بولا جس میں سچ کا عنصر صرف اس قدر تھا کہ مونابائو سے کھوکھرا پار تک ہندستان و پاکستان کا سرحدی علاقہ ہم نے اونٹ کے کوہان پر بیٹھ کر طے کیا تھا ۔ (اونٹ کے بقیہ حصے پر دوسروں کا اسباب رکھا تھا) انٹرویو کے دن تک ہماری ٹانگوں کا درمیانی فاصلہ اسی کوہان کے برابر یعنی ایک گز تھا جیسے کسی نے چمٹے کو چیر کر سیدھا کر دیا ہو۔ 

ہا ہا ہا ! عالی دماغ لوگ ایک ہی طرح سوچتے ہیں ۔ مجھے بھی اس شیطانی ایجاد سے سخت چڑ ہے ۔ سمندری سفر رسے بہتر کوئی سفر نہیں  ۔ شاہی سواری صرف ایک ہے ۔۔۔۔۔۔اسٹیمر ۔ سب سے بڑی خوبی یہ کہ چوبیس گھنٹے کا سفرچوبیس دن میں طے ہوتا ہے ۔ پھر یہ کہ فری ڈرنکس ۔ میں تو پچھلے تیس سال سے لندن سے ہمیشہ بحری جہاز سے آتا ہوں ۔

After all a ship-wreck is much safer than an air crash! Don't you agree?

مجھے یہ جان کر بے انتہا خوشی ہوئی کہ تم بھی ہوائی جہاز سے الرجک ہو ۔ آج سے تم خود کو بینک کا آفیسر سمجھو ۔ 

پسلی پھڑک اٹھی نگہِ انتخاب کی

                                                                                   

اس انٹرویوکوتئیس سال ہو گئے۔ ہمارا خیال کیا  پختہ یقین ہے کہ  اس نے ہمیں بینک میں

محض اس لئے ملازم رکھ لیا کہ ہمیں بھی ہوائی جہاز سے نفرت تھی ۔ ہوائی کمپنی اور خدا ہمیں معاف کرے ہمیں اس ایجاد سے ابھی تک کوئی نقصان نہیں پہنچا ۔ تا دمِ تحریر ہم کسی فضائی حادثے میں ہلاک نہیں ہوئے، جیسا کہ بہت سے ذہین  قارئیں نے اندازہ لگا لیا ہو گا ۔ لیکن کبھی کبھی احمقانہ فقرے  سے بھی آدمی کے دن پھر جاتے ہییں ، بشرطیکہ سننے والا بھی اس صنفِ سخن کا قدردان ہو ۔ اینڈرسن کم و بیش نو سال پاکستان میں رہا لیکن لاہور محض اس لئے نہیں گیا کہ وہاں پانی کا جہاز نہیں جاتا۔ لاہور کو کنٹرے سائیڈ کہتا تھا ۔ حالانکہ اس کےاپنے آبائی گاؤں کی آبادی دو سو نفوس پر مشتمل تھی ۔ نصف آبادی وہسکی بناتی اور بقیہ نصف اسے پیتی تھی ۔ خیر،  ہم ٹوکنے والے کون ۔ کنویں کے مینڈک کو تالاب کے مینڈکا کا مذاق اڑانےحق نہیں پہنچتا۔ ہم خود اندرون سانگا نیری گیٹ جے پور کے رہنے والے تھےاور عرصہ دراز تک باقی ماندہ برصغیر کو آؤٹ سائیڈ سانگا نیری گیٹ سمجھتے رہے ۔ 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *