ہمارا چوتھی کھونٹ جانا (مشتاق احمد یوسفی)

بچپن میں ہم کبھی کیریئر کے بارے میں سنجیدگی سے سوچتے تھے تو انجن ڈررائیوری کے سامنے بادشاہی بھی ہیچ معلوم ہوتی تھی ۔ نام خدا ذرا سیانے ہوئے اور دل سے جن ،  بھوت اور بزرگوں کا ڈر نکلا اور وہ دن آئے جب سائے دھانی ہوتے ہیں ، جب دھوپ گلابی ہوتی ہے تو گھنے جنگلوں میں ٹارزن کی سی سادہ زندگی گزارنے کا عزم کیا ۔ نہ امتحان کا کھٹکا ، نہ روز صبح منہ دھونے کا کھڑاک ۔ محبوبہ ایک گز بھی دور کھڑی ہو تو زورِ شباب میں اکیس گز کی چھلانگ لگانا ۔ پھر واپس بیس گز کی چھلانگ لگا کر پہلو میں پہنچنا اور چھنگھاڑنا ۔  جٹا دھاری برگد کی داڑھی یا یہ  ہاتھ نہ لگے تو لنگور کی دُم پکڑ کر جھولتے ہوئے زُوں سے ایک درخت سے دوسرے درخت اور ایک مقام سے دوسری دُم تک پہنچنا ۔ بَن  مین ترے کودا یوں کوئی دھم سے نہ ہو گا! پھر اپنے اور حورِ صحرائی کے درمیان کوئی دریا ، ظالم سماج کی طرح حائل ہو جاتا تو اسے اس کے والد یا مگر مچھ کی پیٹھ پر بیٹھ کر پار کرتے۔ مگر ہوتا یہ تھا کہ جو بھی کہانی پڑھتے اس کے ہیرو کا محبوب مشغلہ بلکہ محبوبہ تک کو اپنانے کا فیصلہ کر لیتے ۔ کسی کے منہ پر سہرا لٹکا دیکھتے تو واللہ تن بدن میں آگ لگ جاتی ۔ محسوس ہوتا گویا ہماری ذاتی حق تلفی ہورہی ہے اور اگر صلیبی جنگیں بند کرنے میں فریقین اور مولانا عبدالحلیم شرر اتنی عجلت سے کام نہ لیتے کہ ہمیں پیدا ہونے کا موقع تک نہ دیا ، تو آج ہماری قبر قسطنطنیہ ، رومانیہ، ہسپانیہ یا کسی اور ترقی یافتہ  ملک میں ہوتی ۔ 

ہم نے خود کو ہر بہروپ ، ہر سوانگ میں دیکھا تھا ، سوائے بینکر کے ۔ یہ وہ چوتھی  کھونٹ تھی جس طرف جانے کی داستانوں میں سخت مناہی ہوتی ہے ۔ لیکن جدھر جانے والا ضرور جاتا ہے اور پچھتاتا ہے ۔ 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *