گلوں میں رنگ بھرے بادِ نوبہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کروبار چلے
قفس اداس ہے یارو بادِ صبا سے کچھ تو کہو
کہیں تو بہرِ خدا آج ذکرِ یار چلے
کبھی تو صبح ترے کنجِ لب سے ہو آغاز
کبھی تو شب سرِ کاکل سے مشکبار چلے
جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شبِ ہجراں
ہمارے اشک تِری عاقبت سنوار چلے
مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے