بہت گھٹن ہے کوئی صورتِ بیاں نکلے (ساحر لدھیانوی)

بہت گھٹن ہے کوئی صورتِ بیاں نکلے

اگر صدا نہ اُٹھے کم سے کم فغاں نکلے

فقیرِ شہر کے تن پر لباس باقی ہے

امیرِ شہر  کے ارماں ابھی کہاں نکلے

حقیقتیں ہیں سلامت تو خواب بہتیرے

ملال کیا ہے کہ کچھ خواب رائیگاں نکلے

اِدھر بھی خاک اُڑی اُدھر بھی خاک اُڑی

جدھر جدھر سے بہاروں کے کارواں نکلے

ستم کے دور میں اہلِ دل ہی کام آئے

زباں پر ناز تھا جن کو وہ بے زباں نکلے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *