بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے (فیض احمد فیض)

بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے

تم اچھے مسیحا ہو شفا کیوں نہیں دیتے

ہاں نکتہ ورو لاؤ لب و دل کی گواہی

ہاں نغمہ گرو سازِ صدا کیوں نہیں دیتے

مِٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے

منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے

پیمانِ جنوں ہاتھوں کو شرمائے کب تک

دل والو ، گریباں کا پتا کیوں نہیں دیتے

بربادئی دل جبر نہیں فیض کسی کا

وہ دشمنِ جاں ہے تو بھلا کیوں نہیں دیتے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *