گلشنِ یاد میں گر آج دمِ بادِ صبا
پھر سے چاہے کہ گل ا فشاں ہو تو ہو جانے دو
عمرِ رفتہ کے کسی طاق پہ بسرا ہوا درد
پھر سے چاہے کہ فروزاں ہو تو ہو جانے دو
جیسے بیگانہ سے اب ملتے ہو ویسے ہی سہی
آؤ دو چار گھڑی میرے مقابل بیٹھو
گرچہ مل بیٹھیں گے ہم تم تو ملاقات کے بعد
اپنا احساسِ زیاں اور زیادہ ہو گا
ہم سخن ہوں گے جو ہم دونوں تو ہر بات کے بیچ
ان کہی بات کا موہوم سا پردہ ہو گا
کوئی اقرار نہ میں یاد دلاؤں گا نہ تم
کوئی مضمون وفا کا نہ جفا کا ہو گا
گردِ ایام کی تحریر کو دھونے کے لئے
تم سے گویا ہوں دمِ دید جو میری پلکیں
تم جو چاہو تو سنو ، اور جو نہ چاہو نہ سنو
اور جو حرف کریں مجھ سے گریزاں آنکھیں
تم جو چاہو تو کہو ، اور جو نہ چاہو نہ کہو