آکہ وابستہ ہیں اس حسن کی یادیں تجھ سے (فیض احمد فیض)

 

رقیب سے

 

آکہ وابستہ ہیں اس حسن کی یادیں تجھ سے

جس نے اس دل کو پری خانہ بنا رکھا تھا

جس کی الفت میں بھلا رکھی تھی دنیا ہم نے

دہر کو دہر کا افسانہ بنا رکھا تھا

 

آشنا ہیں ترے قدمون سے وہ راہیں جن پر

اس کی مدہوش جوانی نے عنایت کی ہے

کارواں گزرے ہیں جن سے اسی رعنائی کے

جس کی ان آنکھون نے بےسُود عبادت کی ہے

 

تجھ سے کھیلی ہیں وہ محبوب ہوائیں جن میں

اس کے ملبوس کی افسردہ مہک باقی ہے

تجھ پہ بھی برسا ہے اُس بام سے  مہتاب کا نور

جس میں بیتی ہوئی راتوں کی کسک باقی ہے 

 

تو نے دیکھی ہے وہ پیشانی وہ رخسار وہ ہونٹ

زندگی جن کے تصور میں بتا دی ہم نے

تجھ پہ اُٹھی ہیں وہ کھوئی ساحر آنکھیں

تجھ کو معلوم ہے کیوں عمر گنوادی ہم نے

 

ہم پہ مشترکہ ہیں احسان غمِ الفت کے

اتنے احسان کہ گنواؤں تو گنوا نہ سکوں

ہم نے اس عشق میں کیا کھویا ہے کیا سیکھا ہے

جُز تیرے اور کو سمجھاؤں تو سمجھا نہ سکوں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *