دربار میں اب سطوتِ شاہی کی علامت
درباں کا عصا ہے کہ مصنف کا قلم ہے
آوارہ ہے پھر کوہِ ندا پر جو بشارت
تمہیدِ مسرت ہے کہ طولِ شبِ غم ہے
جس دھجی کو گلیوں میں لئے پھرتے ہیں طفلاں
یہ میرا گریباں ہے کہ لشکر کا علم ہے
جس نور سے ہے شہر کی دیوار دُرُخشاں
یہ خونِ شہیداں ہے کہ زرخانئہ جم ہے
حلقہ کئے بیٹھے رہو اِک شمع کو یارو
کچھ روشنی باقی تو ہے ہر چند کہ کم ہے