بہت ملا نہ ملا زندگی سے غم کیا ہے
متاعِ درد بہم ہے تو بیش و کم کیا ہے
ہم ایک عمر سے واقف ہیں اب نہ سمجھاؤ
کہ لطف کیا ہے مرے مہرباں ستم کیا ہے
کرے نہ جگ میں الاؤ تو شعر کس مصرف
کرے نہ شہر میں جل تھل تو چشمِ نم کیا ہے
لحاظ میں کوئی کچھ دور تو ساتھ چلتا ہے
وگرنہ دہر میں اب خضر کا بھرم کیا ہے
اجل کے ہاتھ کوئی آرہا ہے پروانہ
نہ جانے آج کی فہرست میں رقم کیا ہے
سجاؤ بزم غزل گاؤ جام تازہ کرو
بہت سہی غمِ گیتی شراب کم کیا ہے