راہ پر اُن کو لگا لائے تو ہیں باتوں میں
اور کھُل جائیں گے دو چار ملاقاتوں میں
تمہیں انصاف سے اے حضرتِ ناصح کہہ دو
لُطف اِن باتوں میں آتا ہے کہ اُن باتوں میں
غیر کے سر کی بلائیں جو نہیں لیں ظالم
کیا مِرے قتل کو بھی جان نہیں ہاتھوں میں
وصل کیسا وہ کسی طرح بہلتے ہی نہ تھے
شام سے صبح ہوئی اُن کی مداراتوں میں
وہ گئے دن جو رہے یاد بتوں کی اے داغ
رات بھر اب تو گزرتی ہے مناجاتوں میں