عذر آنے میں بھی ہے اور بلاتے بھی نہیں
باعثِ ترکِ ملاقات بتاتے بھی نہیں
کیا کہا پھر تو کہو ہم نہیں سُنتے تیری
نہیں سُنتے تو ہم ایسوں کو سناتے بھی نہیں
خُوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
ہو چکا قطعِ تعلق تو جفائیں کیوں ہوں
جن کو مطلب نہیں رہتا وہ ستاتے بھی نہیں
زیست سے تنگ ہو اے داغ تو کیوں جیتے ہو
جان پیاری بھی نہیں جان سے جاتے بھی نہیں