ذکر اُس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا
بن گیا رقیب آخر تھا جو رازداں اپنا
منظر ایک بلنددی پر اور ہم بنا سکتے
عرش سے اُدھر ہوتا کاش کہ مکاں اپنا
دردِ دل لکھوں کب تک جاؤں ان کو دِکھلاؤں
انگلیاں فگار اپنی خامہ خونچکاں اپنا
تا کرے نہ غمازی کر لِیا ہے دشمن کو
دوست کی شکایت میں ہم نے ہمزباں اپنا
ہم کہا ں کے دانا تھے کس ہنر میں یکتا تھے
بےسبب ہوا غالب دشمن آسماں اپنا