غضب کِیا تِرے وعدے پر اعتبار کیا (داغ دہلوی)

غضب کِیا تِرے وعدے پر اعتبار کیا

تمام رات قیامت کا اتنظارکیا

کسی طرح جو نہ اُس بُت نے  اعتبار کیا

مِری وفا نے مجھے خُوب شرمسار کیا

تجھے تو وعدۃ دیدار ہم سے کرنا تھا

یہ کیا کِیا کہ جہاں کو امیدوار کیا

یہ دل کو تاب کہاں ہے کہ ہو ماآل اندیش

انہوں نے وعدہ کیا اس نے اعتبار کیا

نہ پوچھ دل کی حقیقت مگر یہ کہتے ہیں

وہ بے قرار رہے جِس نے بے قرار کیا

فسانئہ شبِ غم ان کو اِک کہانی تھی

کچھ اعتبار کیا کچھ نہ اعتبار کیا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *