قطعات (فیض احمد فیض)

نہ دید ہے نہ سخن اب نہ حرف ہے نہ پیام

کوئی بھی حیلۃ تسکیں نہیں اور آس بہت ہے

امید یار نظر کا مزاج درد کا رنگ

تم آج کچھ بھی نہ پوچھو کہ دل اداس بہت ہے

 

 

 

میخانوں کی رونق ہیں کبھی خانقہوں کی

اپنا ہوس والوں نے جو رسم چلی ہے

دلدارئ واعظ کو ہمیں باقی ہیں ورنہ

اب ہر شہر میں ہر رند خرابات ولی ہے

 

ہم خستہ تنوں سے محتسبو کیا مال منال کا پوچھتے ہو

جو عمر سے ہم نے بھر پایا سب سامنے لائے دیتے ہیں

دامن میں ہے مشت خاک جگرساغر میں ہے خون حسرت مے

لو ہم نے دامن جھاڑ دیا لو ہم جام الٹائے دیتے ہیں

 

 

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *