دور آفاق پہ لہرائی کوئی نور کی لہر (فیض احمد فیض)

قیدِ تنہائی

دور آفاق پہ لہرائی کوئی نور کی لہر

خواب ہی خواب میں بیدار ہوا درد کا شہر

خواب ہی خواب میں بیتاب نظر ہونے لگی

عدم آبادِ جدائی میں سحر ہونے لگی

کاسئہ دل میں بھری اپنی صبوحی میں نے

گھول کر تلخئی دیروز میں امروز کا زہر

 دور آفاق پہ لہرائی کوئی نور کی لہر

آنکھ سے دور کسی صبح کی تمہید لئے

کوئی نغمہ، کوئی خوشبو، کوئی کافر صورت

بے خبر گزری پریشانیِ امید لئے

گھول کر تلخئی دیروز میں امروز کا زہر

حسرتِ روزِ ملاقات رقم کی میں نے

دیس پردیس کے یارانِ قدح خوار کے نام

حسنِ آفاق ، جمالِ لب و ورخسار کے نام

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *