رہ گزر، سائے، شجر، منزل ودر، حلقئہ بام (فیض احمد فیض)

منظر

رہ گزر، سائے، شجر، منزل ودر، حلقئہ بام

بام پر سینئہ مہتام کھلا، آہستہ

جس طرح کھولے کوئی بندِ قبا، آہستہ

حلقئہ بام تلے ، سایوں کا ٹھہرا ہوا نیل

نیل کی جھیل

جھیل میں چپکے سے تیرا،  کسی پتے کا حباب

ایک پل تیرا، چلا ، پھوٹ گیا، آہستہ

بہت اہستہ، بہت ہلکا، خنک رنگِ شراب

میرے شیشے میں ڈھلا

شیشہ وجام ، صراحی،  ترے ہاتھوں کے گلاب

جس طرح دور کسی خواب کا نقش

آپ ہی آپ بنا اور مِٹا آہستہ

دِل نے دہرایا کوئی حرفِ وفا، اہستہ

تم نے کہا ، آہستہ

چاند نے جھک کے کہا

“اور ذرا آہستہ”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *