بوڑھا پنواڑی ! اس کے بالوں میں مانگ ہے نیاری (مجید امجد)

پنواڑی

بوڑھا پنواڑی ! اس کے بالوں میں مانگ ہے نیاری

آنکھوں میں جیون کی بجھتی اگنی کی چنگاری

نام کی اِک ہٹی کے اندر بوسیدہ الماری

پان کتھا ، سگرٹ، تمباکو ، چونا، لونگ ، سپاری

عُمر اس بوڑھے پنواڑی کی پان لگاتے گزری

چُونا گھولتے ، چھالیا کاٹتے ، کتھ پگھلاتے گزری

سگرٹ کی  خالی ڈبیوں کے محل سجاتے گزری

کتنے شرابی مشتریوں سے نین ملاتے گزری

چند کسیلے پتوں کی گتھی سلجھاتے گزری

کون اس گتھی کو سلجھائے دنیا ایک پہیلی

دو دن اِک پھٹی چادر میں دکھ کی آندھی جھیلی

دو کڑوی سانسیں لیں  دو چلموں کی راکھ انڈیلی

اور پھر اس کے بعد نہ پوچھو کھیل جو ہونی کھیلی

پنوڑی کی اَرتھی اُٹھی بابا اللہ بیلی

صبح بجھن کی تان منوہر جھنن جھنن لہرائے

ایک چتا کی راکھ ہوا کے جھونکوں میں کھو جائے

شام کو اس کا کمسن بالا بیٹھا پان لگائے

جھن جھن ٹھن ٹھن چونے والی کٹوری بجتی جائے

ایک پتنگا دیپک پر جل جائے دوسرا آئے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *