ہجر کی شب نالئہ دل وہ صدا دینے لگے
سننے والے رات کٹنے کی دعا دینے لگے
باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
آئنہ ہو جائے میرا عشق ان کے حسن کا
کیا مزہ ہو درد اگر خود ہی دوا دینے لگے
سینئہ سوزاں میں ثاقب گھٹ رہا ہے وہ دھواں
اف کروں تو آگ کی دنیا ہوا دینے لگے