ڈھونڈوگے ہمیں ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
تعبیر ہے جس کی حسرت و غم اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم
اے درد پتا کچھ تُو ہی بتا ، اب تک یہ معمہ حل نہ ہوا
ہم میں ہے دلِ بیتاب نہاں یا آپ دلِ بے تاب ہیں ہم
میں حیرت و حسرت کا مارا خاموش کھڑا ہوں ساحل پر
دریائے محبت کہتا ہے آ کچھ بھی نہیں پایاب ہیں ہم
لاکھوں ہی مسافر چلتے ہیں منزل پہ پہنچتے ہیں دو ایک
اے اہلِ زمانہ! قدر کرو، نایاب نہ ہوں کمیاب ہیں ہم
مرغانِ قفس کو پھُولوں نے اے شاد یہ کہلا بھیجا ہے
آنا ہو اگر تو آجاؤ ایسے میں ابھی شاداب ہیں ہم