نظروں کے سامنے ہے اک شوخ ماہ پارہ (ماہرالقادری)

مشاہدہ

نظروں کے سامنے ہے اک شوخ ماہ پارہ

میں لڑکھڑا رہا ہوں دینا کوئی سہارا

وہ اس کا میری جانب یکبارگی اشارہ

رخ جس طرح بدل دے دریا کا تیز دھارا

اس جانِ گلستاں نے انگڑائی ناز سے لی

یا طاقِ مے کدہ سے شیشہ کوئی اتارا

رنگیں لبوں پہ رقصاں ہلکی سی مسکراہٹ

جیسے شفق کی ضو میں اک کانپتا ستارہ

اندازِ کم نگاہی، جلووں کی بے پناہی

بے تاب ہے تمنا ، سکتہ میں ہے نظارہ

یہ چال یہ قیامت، یہ ناز یہ شرارت!

حل ہوگیا جیسے شوخی میں گرم پارہ

میں سہل سراپا در زعم باطل خود

وہ قاتلِ مجسم” بالاتفاق آرا”

یہ کس نے مسکرا کر نیچی نظر سے دیکھا

جنبش میں آگیا ہے دل کا نظام سارا

اس مختصر نظر پر، یہ جان و دل نچھاور

اک کامیاب سودا جس میں نہیں خسارا

ماہر یہی گھڑی ہے معراجِ زندگی کی

اتنے حسیں مناظر ملتے نہیں دوبارہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *