غزل (سلیم احمد)

عشق میں جس کے یہ حال بنا رکھا ہے

اب وہی کہتا ہے اس وضع میں کیا رکھا ہے

 

حالِ دل کون سنائے اسے فرصت کس کو

سب کو اس آنکھ نے باتوں میں لگا رکھا ہے

 

دیکھ اے دل! نہ کہیں بات یہ اس تک پہنچے

چشمِ نمناک نے طوفان اٹھا رکھا ہے

 

تیرے آنے کی خبر پا کے ابھی سے دل نے

شکوہ کو اور کسی دن پہ اٹھا رکھا ہے

 

بارہا یوں بھی ہوا تیری محبت کی قسم

جان کر ہم نے تجھے خود سے خفا رکھا ہے

 

دشت و در خیر منائیں کہ ابھی وحشت میں

عشق نے پہلا قدم نامِ خدا رکھا ہے

 

ہجر میں رنج بھی کرتے ہیں پہ اتنا بھی سلیم

یار تو نے تو عجب حال بنا رکھا ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *