یوں بھی ہونے کا پتہ دیتے ہیں (باقی صدیقی)

یوں بھی ہونے کا پتہ دیتے ہیں

اپنی زنجیر ہلا دیتے ہیں

پہلے ہر بات پہ ہم سوچتے تھے

اب فقط ہاتھ اٹھا دیتے ہیں

بعض اوقات ہوا کے جھونکے

لو چراغوں کی بڑھا دیتے ہیں

دل میں جب بات نہیں رہ سکتی

کسی پتھر کو سنا دیتے ہیں

ایک دیوار اٹھانے کے لیے

ایک دیوار گرا دیتے ہیں

سوچتے ہیں سرِ ساحل باقی

یہ سمندر ہمیں کیا دیتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *